مختصر حالات زندگی

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد سعید الحکیم (دام ظلہ العالی)

موصوف کے والد اور آپ کی زندگی کے بعض اہم گوشے

موصوف کے والد محترم کا ایک مختصر تعارف

آپ کے والد ماجدحضرت آیۃ اللہ سید محمد علی بن سید احمد الحکیم ۱۳۲۹ ؁ھ میں متولد ہوئے،آپ ،عالم جلیل، مجتہد، درس خارج فقہ واصول کے استاد ،نجف اشرف میں امام جماعت،بے حد متواضع،با مروت وشرافت، صاحب ایثار وفداکار ،جفا کش،لوگوں کے تمام طبقات میں مورد وثوق واعتماد ،صالح ،متقی، پرہیزگار ،بلند صفات واعلی اخلاق میں مشہور نیز اپنی زندگی میں ہر طرح کے تصنع ،تکلف ،ریا کاری اور ہر قسم کی چاپلوسی سے پاک ومنزہ تھے۔ موصوف نے حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم قدس سرہ ، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ مرزاسید حسن بجنوردی قدس سرہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالحسین حلی قدس سرہ سے علم حاصل کیا، آیۃ اللہ العظمیٰ محقق شیخ محمد حسین اصفہانی کے در س خارج اصول فقہ میں شرکت کی۔ آپ نے ’’حوزہ علمیہ نجف‘‘ کو بہت سے علماء وافاضل عطا کئے جنھوں نے آپ کے دروس اور علمی صلاحیتوں سے تعلیم وتربیت حاصل کی آپ علمی تربیت کے ساتھ ساتھ ایمانی واخلاقی تربیت کے سلسلہ میں بڑا اہتمام برتتے تھے۔ حوادث وواقعات ،تغیرات وتبدیلیوں اور اجتماعی حالات کے تئیں دقتِ نظر اور سنجید ہ فکر سے کام لینا ،اہل بیت اطہار ۔ کی راہ وروش اور نہج وثقافت کو استحکام بخشنے میں اس درجہ اہتمام برتنا آپ کا طرۂامتیاز تھا۔ آپ مرحوم حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم قدس سرہ کی مرجعیت کے اہم رکن تھے، مرحوم آقای حکیم نے ۱۳۸۵ ؁ھ میں آپ کو جناب شیخ محمد رشتی قدس سرہ کے ہمراہ اپنا نمائندہ بنا کر ہندوستان کی دو جماعتوں کے بیچ جاری نزاع کوحل وفصل کرنے کی غرض سے روانہ کیا، آپ کو علم ہیئت ،ہندسہ اور حساب وریاضیات میں مہارت تامہ حاصل تھی نیز علمائے نجف کے حلقوں میں اچھی خاصی شہرت رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم قدس سرہ نے جدید علم حساب کے قواعد کے مطابق تقسیم میراث کے موضوع پر کتاب تحریر کرنے کی ذمہ داری آپ کو سونپی اور آپ نے حضرت علی ۔ کے حرم میں نہایت دقت کے ساتھ سمت قبلہ کو معین فرمایا۔ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد علی الحکیم کی اولاد ۱۔ سید محمد سعید ۲۔ سید محمد تقی ۳۔ سید عبدالرزاق ۴۔ شہید جناب سید محمد حسن ۵۔ سید محمد صالح آیۃ اللہ سید محمد علی الحکیم کی تالیفات ۱۔بحثِ قبلہ ۔ ۲۔ اسلامی درہم ودینار کی بحث ۔ ۳۔ جدید علم حساب کے مطابق تقسیم میراث ۔ ۴۔ بحث وقت زوال ۔ ۵۔ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین اصفہانی کے درس خارج اصو ل کی تقریرات۔ ۶۔ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیمکے درس خارج فقہ کی تقریرات ۔ ۷۔ کفایۃ الاصول پر حاشیہ ۔ ۸۔ فرائد الاصول(رسائل )پر حاشیہ آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم کی زندگی کے بعض اہم گوشے آپ کااسم گرامی سید محمد سعیدبن سید محمد علی بنسید احمدبن سید محسن بن سید احمد بن سید محمودابن سید ابراہیم [طیب ]بن امیر سید علی حکیم بن سید مراد طبا طبائی ۔ شجرۂ نسب آپ کا شجرہ نسب ؛ابراہیم طباطبا(۱) بن اسماعیل (۲)دیباج بن ابراہیم الغمر ابراہیم طباطبا ‘‘کی طرف طباطبائی سادات منسوب ہیں ،آپ وہی ہیں جنھوں نے ’’حسین بن علی‘‘ کے ساتھ بمقام فخ خروج کیا تھا ۔اسماعیل دیباج بن ابراہیم غمر کو منصور عباسی خلیفہ نے بعض دیگر حسنی سادات کے ساتھ عراق کے شہر ہاشمیہ میں جو شہر حلہ کے قریب ہے قید خانہ میں ڈال دیا تھا اور وہیں پر ۱۴۵ ؁ھ میں آپ کی شہادت واقع ہوئی،ابوالفرج اصفہانی نے عبداللہ بن موسیٰ سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے بن حسن مثنیٰ (۱)بن امام حسن بن علی بن ابیطالب 222 پر منتہی ہوتا ہے ۔ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدسعید الحکیم طباطبائی دام ظلہ العالی؛سید الطائفہ ،مرجع سید محسن الحکیم اعلی اللہ مقامہ کے بڑے نواسے  ہیں۔

عبد الرحمن بن ابی المولیٰ سے (جو اولادحسن بن حسن کے ہمراہ قید خانہ میں تھے )پوچھا ؟ قید خانہ کی سختیوں پر ان حضرات کے صبر کا کیا عالم تھا؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ حضرات بہت صابر تھے اور ان میں ایک شخص بالکل سونے جیسا تھا کہ جس قدر اسے آگ میں رکھا جائے اس کی اصلیت میں اضافہ ہو تا چلاجاتا ہے اوروہ شخص اسماعیل ابن ابراہیم تھے کہ ان پر جتنی سختی بڑھی ا ن کا صبر بھی اتنا ہی پائیدار ہوتا چلاگیا۔ابراہیم غمر کو بھی منصور عباسی خلیفہ نے حسنی سادات کی ایک جماعت کے ساتھ گرفتار کرکے عراق کے شہرہا شمیہ کی جانب روانہ کردیا جو حلہ کے قریب واقع ہے چنانچہ آپ ۱۴۵ ؁ھ کو راستے ہی میں شہید کردیئے گئے اور نجف اشرف کی سمت کوفہ کے قریب ایک مقام پر دفن کردئے گئے۔ آپ کی قبر آج بھی مشہور ومعروف ہے ،ابو الفرج اصفہانی نے یحیی ابن حسن کے بقول نقل کیا ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بہت مشابہ تھے ۔ جناب حسن مثنی اپنے چچا حضرت امام حسین ۔ کے ساتھ واقعہ کربلا میں موجود تھے آپ ان ہاشمی افراد میں سے تھے جنھوں نے جناب علی اکبر ۔ کی شہادت کے بعد لشکر ابن سعد پر حملہ کیا پھر شدید طور پر زخمی ہوکر زمین پر گرپڑے یہاں تک کہ بعد میں جب لوگوں کی آپ تک رسائی ہوئی تو آپ میں رمق حیات باقی تھی چنانچہ آپ زندہ رہے اور آپ کو طولانی عمر نصیب ہوئی ،آپ بافضل وجلالت ،صاحب ریاست ،متقی وپرہیزگار تھے اور اموال صدقات امیر المومنین ۔ کے متولّی وذمہ دار بھی رہے ۔ مقامہ آپ کے والد ماجد کے ماموں ہیں۔ موصوف نے ۱۸؍ذی القعدہ ۱۳۵۴ ؁ ھ مطابق ۱۹۳۴ ؁ ء کو شہر نجف کی مقدس سرزمین پر آنکھ کھولی، بچپنے ہی سے والد ماجد دام ظلہ کی بے انتہا توجہات وعنایت کا مرکز رہے چونکہ انہیں اپنے اس فرزند اکبر کی ذات میں شروع ہی سے تحصیل علم وکمال کی استعداد ولیاقت اور علمی مباحث میں دقت نظرو عمیق نگاہ کے جو ہر نظر آرہے تھے، لہٰذا مرحوم نے موصوف کو اس وقت علم دین سے آراستہ ہونے کی تلقین کی جب کہ آپ ابھی اپنی عمر کی پہلی دہائی سے بھی نہیں گزرے تھے۔ پھر انھوں نے آپ کی ذات میں اخلاق پسندیدہ اور صفات جمیلہ کا ایسا باغ لگایا جس کی سرسبزوشادابی کے اوپر آپ کی سیرت استوار و نمودار ہوئی کیونکہ آ پ کے پہلے مربی بلند صفات واعلی اخلاق کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ عالم جلیل القدر فقہ واجتہاد میں ید طولیٰ رکھنے والے ، نہایت شریف ، متواضع، بامروت اور صاحب ایثار ، متقی ،پرہیزگار اور مخلص پروردگار تھے اور یہی صفات واخلاق آپ کے اس ہونہار فرزند کو میراث میں نصیب ہوئے ،چنانچہ آپ اپنے والدمحترم کی خاص عنایتوں کے زیر سایہ پروان چڑھے ان ہی نے بنفس نفیس آپ کو علوم واحکام شریعت کے مقدماتی مراحل کی تدریس کی، جب کہ اس دوران وہ سطوح عالیہ کی تدریس میں مشغول تھے،پھر آپ نے والدعلام کے ذریعہ اکثر سطوح عالیہ کے دروس کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ یہ آپ کے استاد ، مربی اور باپ ہی کی روحانی تاثیر تھی کہ موصوف کو علم ودانش سے بے پناہ شوق اور حکمت ومعرفت کی جانب حسن توجہ حاصل رہی۔ بالخصوص یہ کہ آپ کی یہ شاگردی علمی زندگی کے ابتدائی مراحل سے ہی ایسے ماحول میں رہی جس کا درسی مباحث سے گہراربط تھا،یعنی بزم علم و حکمت کا احاطہ تھا، علمی مذاکرات،فقہ واصول کے معارف ،علوم قرآن ،حدیث شریف ،سوانح ،سیرت، علم رجال اور ہدف مند اسلامی ادب وغیرہ جیسے ابواب میں مباحثات کے لئے مسلسل محفلیں سجی رہتی تھیں ۔ اس کے علاوہ اخیار وصالحین کی مصاحبت کے فیض سے حاضرین بزم کے نفوس کو جو روحانی عطا حاصل ہوتی ،بلند معانی ومفاہیم کو جو تجسم ملتا اور ایمان ، ورع ، تقویٰ ، زہد وصبر وغیرہ جیسے فضائل وخصائل کی پائیدار بنیادوں پر نفس کی جو تہذیب وتربیت ہوتی نیز خیروخوبی ،فضل وشرف اور حسن سلوک کے جو عملی دروس وہاں سے ملتے وہ اپنی جگہ پر قابل توجہ ہیں ۔ جوانی کے مراحل میں موصوف کو جو نمایاں امتیاز حاصل رہا وہ ان قدآور عملی شخصیتوں کے فیض صحبت سے بہر ہ مند ہوتے رہنا ہے جن کے ساتھ آپ کے والد علام کی نشست و برخواست رہا کرتی تھی،یہی حضرات جو آپ کے استاد اور روحانی باپ تھے منجملہ ان شخصیتوں کے : ۹ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین حلی( قدس اللہ نفسہ الزکیہ)۔ جناب شیخ حسین حلی (متولد ۱۳۰۹ ؁.ھ متوفی ۱۳۹۴ ؁ھ )فقیہ ،فاضل ،مجتہد ،خبیر ،استاد فقہ متقی وپرہیز گار آپ کے ماموں حضرت آیۃ اللہ سید یوسف طباطبائی الحکیم قدس سرہ۔ آپ کی علمی زندگی اب جب کہ ہم موصوف کی بہترین نشوونما اور والد محترم کی جانب سے موصوف پر علمی ، دینی اور اخلاقی تربیت کے بارے میں نہایت نظر کرم کرنے جیسی معلومات سے واقف ہوچکے تو یاد رکھئے کہ یہی چیزیں سبب قرار پائیں کہ آپ کی نسبت حضرت آیۃ ا... العظمیٰ سید محسن الحکیم طاب ثراہ نے بھی خاص طور پر توجہ مبذول فرمائی (کیونکہ انہوں نے آپ کی ذات میں موجود فکری لیاقت اور ذہنی استعداد کے آثار کو محسوس کرلیا تھا )نیز آپ کی شان میں ان کے جو ستائشی کلمات صادر ہوئے جن سے آپ کی ذات سے وابستہ ان کی آرزؤں کا اظہار ہوتا ہے او رجو آپ کی علمی شخصیت میں رفعت ،نتیجہ خیز اور مدارج کمال پرفائز ہونے کی خبر دیتے ہیں وہ مخفی وپوشیدہ نہیں، چنانچہ جناب محسن الحکیم طاب ثراہ نے آمادۂ طباعت کرنے کی غرض سے اپنے فقہی دائرۃ المعارف ’’مستمسک العروۃ الوثقی ‘‘کے بعض مسودوں پرنظر ثانی کرنے کی ذمہ داری آپ کو سونپی جسے آپ نے بخیر وخوبی انجام دیا اور بعض مطالب کتاب کے متعلق مرحوم حکیم طاب ثراہ کی طرف مر اجعہ کرتے تو دونوں حضرات کے ما بین بحث ومباحثہ ہوتا جس سے حکیم طاب ثراہ پر عیاں ہوگیا کہ میرایہ نواسہ کس درجہ علمی تفوق وصلاحیت کا مالک ہے، چنانچہ مرحوم نے مذکورہ دائرۃ المعارف کے بعض مطبوعہ اجزاء پر نظر ثانی کرنے کا بھی آپ کو حکم دیا ۔ مرحوم جناب محسن الحکیم طاب ثراہ اور استاد جلیل القدر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین حلی قدس سرہ کی شاگردی نے سیدنا المعظم کی تربیت اور سیروسلوک کی راہ میں بہت گہرا اثر چھوڑا کیونکہ آپ علمی دروس حاصل کرنے کے ساتھ سیرو سلوک ،تقوی ،ورع ، زہداورصلاح کے علمی سبق بھی حاصل کرتے تھے جو فی الواقع اعلی صفات اور بلند انسانی اقدار ہیں اورجن سے فقہائے دین وعلمائے امت کو آراستہ ہونا چاہئیے ۔ اس کے علاوہ آپ کے مذکورہ دور کی علمی زندگی میں جو چیز نمایاں تھی وہ یہ کہ آپ اپنے استاد شیخ حلی قدس سرہ کے ان عمومی علمی جلسات میں مستقل مزاجی کے ساتھ شرکت کرتے جن سے نجف اشرف اس وقت چھلکتا تھا۔ اسی طرح استاد موصوف کے ان خصوصی جلسات میں بھی حاضر ہوتے جنہیں استاد نے اپنے پابند ،مستقل مزاج اورجفا کش شاگردوں کے لئے مخصوص کررکھا تھا اور سید نا المعظم دام ظلہ بھی ان علمی جلسات کو بہت سراہتے اورفرمایا کرتے’’ ’’ میں نے استاد شیخ حلی طاب ثراہ کے دروس سے زیادہ ان کے علمی جلسات سے استفادہ کیا ۔‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ استاد مرحوم کے دروس کو کم اہمیت قرار دیتے تھے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان علمی جلسات ومذاکرات سے فائدہ زیادہ حاصل ہوا جوان کے یہاں مستقل طور سے جاری رہا کرتے تھے،آپ کے استاد شیخ حلی طاب ثراہ سید نا المعظم دام ظلہ کے عمق اورباامتیاز علمی سطح کی بڑی تعریف کرتے اور صراحت کے ساتھ کہتے کہ تمہاری ذات سے ہمیں بڑی امیدیں ہیں نیز اپنے جلسہ درس میں جو علماء وافاضل سے معمور ہوا کرتا تھا آپ کو اشکال کرنے کا وافر موقع عطا فرماتے ،مرحوم شیخ طاب ثراہ کے شاگرد آیت اللہ جناب مفتی الشیعہ فرماتے ہیں: ’’ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدسعید الحکیم دام ظلہ العالی عالیجناب شیخ حلی مرحوم کے درس میں ہم سب سے کمسن ہونے کے باوجود سب پرسبقت لیجاتے اور کثرت سے اشکال کرتے جس سے ہمیں تعجب اس بات پرہوتا کہ یہ کتنی جلدی استاد کے مطالب کو کامل طور پرسمجھ لیتے ہیں اورفوراً اشکال کردیتے ہیں‘‘!! حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدسعید الحکیم دام ظلہ کے اساتذہ ذیل میں ہم آپ کے اہم اساتذہ کے اسمائے گرامی بالترتیب پیش کرتے ہیں: ۱۔ آپ کے والد علام حضرت آیت اللہ سید محمد علی طباطبائی الحکیم دامت برکاتہ،جنہوں نے بنفس نفیس آپ کولغت، نحو، منطق ،بلاغت اوراصول وفقہ کی تعلیم دی یہاں تک کہ سطح عالی تک کے اکثر دروس کو خود اپنے یہاں تمام کرایا۔ ۲۔ آپ کے نانا مرجع الشیعہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محسن الحکیم قدس سرہ ،جن کے یہاں فقہ کے درس خارج میں آپ نے بہت سے ابواب فقہ میں مدتوں شرکت کی اوران کی تقریرات بھی لکھیں جن کاتذکرہ آپ کی تالیفات کے ذکر کے ذیل میں آئے گا ۔ ۳۔ استاذ الفقہاء والمجتہدین آیۃ اللہ العظمیٰ الشیخ حسین الحلی قدس سرہ ، جن کے فقہ واصول کے درس خارج میں آپ نے شرکت کی اورتقریرات درس بھی تحریر فرمائی۔ ۴۔ مرجع تشیع مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ محقق سید خوئی قدس سرہ ،جن کے علم اصول کے درس خارج میں آپ نے دو سال شرکت کی اور درس کی تقریرات بھی لکھی ،جس کا تذکرہ آپ کی تالیفات کے تذکرہ کے ضمن میں آئے گا ۔ تدریس اورآپ کے شاگرد آپ نے عالی سطح تک کے حوزوی دروس کی تدریس کے کئی دورے تمام کرنے کے بعد ۱۳۸۸؁.ھ میں کتاب’’ کفایہ الاصول‘‘ سے علم اصول کا درس خارج دینا شروع کیا اور ۱۳۹۲ ؁ھ میں اس کے پہلے جزء کا درس خارج تمام کیا ،پھر اسی سال’’ کفایہ الاصول‘‘ سے علیحدہ روش پر بحث قطع کا درس خارج شروع کیا اور علم اصول کا اپنا پہلا دورہ درس خارج ۱۳۹۹؁ھ میں پورا کیا ،پھر اس کے بعد اصول کا دوسرا دورہ شروع کیا اورتدریس کے ساتھ تالیف وتصنیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اس کے باوجود کہ حالات نہایت سخت اور دشوار اور برابر قیدوبند کا سلسلہ پیش آتا رہا کہ جس کا دور ۱۴۰۳ ؁ھ سے لے کر ۱۴۱۱ ؁ھ تک رہا ، مگر آپ اس دوران بھی علم اصول کا ایک مختصر دورہ برگزار کرنے سے با ز نہ آئے،رہا علم فقہ تو آپ نے شیخ اعظم انصاری قدس سرہ کی کتاب ’’مکاسب ‘‘ سے ۱۳۹۰؁.ھ میں فقہ کا در س خارج شروع کیا پھر ۱۳۹۲ ؁.ھ میں سید محسن الحکیم طاب ثراہ کی کتاب منہاج الصالحین سے استدلالی فقہ کی تدریس کا آغاز کیا جس کا سلسلہ برسوں سے جاری وساری ہے اورتلخ وناگوار حالات کے با وجود آج تک برقرار ہے ،آپ کے ہاتھوں ’’حوزہ علمیہ نجف‘‘ سے بہت سے برگزیدہ علماء فارغ التحصیل ہوکر نکلے جو آج نجف اشرف اور قم وغیرہ کے حوزات علمیہ میں بزرگ اساتذہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ کی تالیفات سطوح عالیہ کے درس وبحث کے دوران ہی تحقیقات وعلمی نکات سے متعلق خاص امتیاز کی حامل آپ کی بعض تحریرات ونگارشات کے علاوہ آپ کی بعض تالیفات بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے : ۱۔’’المحکم فی اصول الفقۃ‘‘ یہ چھ جلدوں پر مشتمل علم اصول کا ایک مفصل اورکامل دورہ ہے اس کی دو جلدیں مباحث الفاظ وملازمات عقلیہ ،دو جلدیں مباحث قطع وامارات وبرائت واحتیاط اور آخر کی دو جلدیں استصحاب ،تعارض اوراجتہاد وتقلید کی بحثوں سے متعلق ہیں ۔ ۲۔ ’’مصباح المنہاج ‘‘ یہ مفصل استدلالی فقہ ہے جو کتاب منہاج الصالحین کے اوپر لکھی گئی ہے ،اب تک اس کی ۱۵؍ جلدیں مکمل ہوچکی ہیں جو کتاب مکاسب محرمہ کی بحثوں سے متعلق، اجتہاد وتقلید ،کتاب الطہارۃ، الصوم ، الخمس ہیں جن کوآپ نے بڑے نازک حالات میں لکھا ہے۔ ۳۔ ’’الکافی فی اصول الفقہ‘‘ یہ کتاب ،علم اصول کا ایک مختصر دورہ ہے جسے آپ نے خاص حالات میں لکھاہے۔ اس میں آپ نے علم اصول کی اہم بحثوں پر ہی اکتفاء کی ہے دو جلدوں میں زیورطباعت سے آراستہ ہوچکی ہے ۔ ۴۔ ’’کتاب فی الاصول العملیۃ ‘‘ آپ نے اس کتاب کو اپنے ذہن وحافظہ پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کے پاس کوئی دوسری کتاب موجود نہ تھی اورپھر اس کتاب کی آپ نے اس وقت خود تدریس بھی کی ،لیکن افسوس کہ یہ کتاب بعض اسباب کے تحت تلف اور ضائع ہوگئی ۔ ۵۔’’رسائل شیخ انصاری کے اوپر مفصل حاشیہ‘‘ یہ چھ جلدوں میں آمادہ طباعت ہے ۔ ۶۔’’کفایۃ الاصول آخوندکے اوپر مفصل حاشیہ‘‘ یہ پانچ اجزاء پر مشتمل ہے اسے آپ نے’’ کفایۃ الاصول‘‘ سے درس خارج دیتے وقت تحریر کیا ہے ۔ ۷۔ ’’مکاسب شیخ انصاری پر مفصل حاشیہ‘‘ اسے آپ نے مکاسب کا درس خارج دینے کے دوران تحریرکیاہے ،دو جلدوں پر مشتمل ہے اس کی انتہا عقدفضولی کی بحث پرہوتی ہے ۔ ۸۔’’تقریرات درس سید محسن الحکیم قدس سرہ ‘‘ یہ کتاب نکاح،مزارعہ ،وصیت ،ضمان ،مضاربہ وشرکت سے متعلق ہے ۔ ۹۔’’تقر یر ات درس استاد جلیل شیخ حلی قدس سرہ‘‘اصول ۱۰۔تقر یرات درس استاد شیخ حلی قدس سرہ فقہ ۱۱۔’’تقریرات درس آیت اللہ العظمیٰ خوئی قدس سرہ ‘‘ جس حدتک آپ نے مرحوم کے درس میں شرکت فرمائی ۱۲۔خارج معاملات سے متعلق ایک مستقل تحریر اسے موقع فراہم ہونے کی صورت میں آپ مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ۱۳۔ ’’رسالہ علمیہ‘‘ یہ آپ کے فتووں سے متعلق ہے،جسے آپ نے مؤمنین کے بیحد اصرار پر لکھا،عبادات و معاملات سے مربوط منہاج الصالحین کے نہج پر تین ا جزاء پر مشتمل ہے ۔ ۱۴۔ ’’مناسک حج وعمرہ‘‘ ۱۵۔ ’’رسالہ‘‘ ( پردیس میں رہنے والے عراقیوں کے نام ۱۶۔’’رسالہ‘‘ مبلغین وطلاب حوزہ علمیہ کے نام ، جس کا فارسی اوراردومیں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ ۱۷۔’’الحوار‘‘گفتگو یہ دو جزء میں ہے جو دینی مرجعیت سے متعلق آپ کے ساتھ انجام شدہ گفتگو پرمشتمل ہے ۔ ۱۸۔’’مرشد المغترب ‘‘ یہ وطن سے دور رہنے والے افراد کے لئے آپ کے ہدایات وفتاوے پرمشتمل ہے ۔ ۱۹۔فقہ القضاء جس میں قضاوت سے متعلق جدید مسائل کے بارے میں استدلالی بحثیں ہیں ۔ ۲۰۔’’فی رحاب العقیدہ‘‘ یہ بہت سے اعتقادی مسائل کے بارے میں ان کی ایک علمی شخصیت کے ساتھ انجام شدہ مفصل گفتگو پر مشتمل تین اجزاء میں واقع ہے۔ ۲۱۔ ’’فقہ الکمپیوتر والانترنیت‘‘ یہ کمپیوٹر انٹرنیٹ سے متعلق احکام پر مشتمل ہے ۔ ۲۲۔ ’’فقہ الاستنساخ البشری‘‘ انسان کی شبیہ سازی (کلوننگ )کے احکام ۲۳۔’’الاحکام الفقہیہ‘‘ یہ آپ کا رسالہ عملیہ ہے اس کا فارسی اور اردومیں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ ۲۴۔’’الفتاوی ‘‘ مختلف موضوعات پر آپ سے کئے گئے استفتاأت کے جوابات پر مشتمل ہے اس کے ایک حصہ کا فارسی ترجمہ بھی شائع ہوچکاہے ۔ ۲۵۔’’رسالہ ‘‘ جمہوریہ آذربائیجان وقفقاز کے مؤمنین کے نام ہدایات پر مشتمل جس کا آذری زبان میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔ ۲۶۔’’ رسالہ‘‘ ہدایات پر مشتمل حجاج بیت اللہ الحرام کے نام ۔ ۲۷۔رسالہ فی الاصولیۃ والاخباریۃ۔ ۲۸۔’’رسالہ ‘‘ یہ گلگت اورشری نگر میں رہنے والے مؤمنین کیلئے ہدایات پرمشتمل ہے۔

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدسعید الحکیم دام ظلہ کی مرجعیت آپ نوجوانی سے ہی تدریس وتالیف میں شہرت یافتہ تھے آپ نے اپنا سارا وقت حوزہ علمیہ نجف کے جوان طلاب کے علمی معیار کو بلند کرنے کی راہ میں صرف کردیا چنانچہ آپ انھیں بنفس نفیس درس دیتے اور ان کی علمی سرگرمیوں کی سلسلہ جنبانی کرتے جس کے باعث بہت سے طلاب وفضلاء اعلیٰ علمی سطح تک پہنچ گئے ۔ اس کے علاوہ آپ ان کی اخلاقی تربیت کا بھی بیحد خیال رکھتے تا کہ تقوی و پرہیزگاری سے متصف رہیں اور اپنی تالیف وتصنیف اورتحقیق کے ذریعہ حوزہ علمیہ نجف کو استحکام بخشنے میں اہم کردار اداکریں ۔ حضرت آیت اللہ العظمیٰ مرحوم خوئی رضوان اللہ تعالی علیہ کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ عراق اوربیرونی مؤمنین وفضلاء کے بڑے حلقوں کی جانب سے جن میں بعض بزرگ علماء ومراجع دینی بھی شامل ہیں ،آپ ہی کی طرف مقام مرجعیت کو قبول کرنے کے لئے کثرت سے رجوع کیا گیا اور اس امر کے لئے شدت سے اصرار کیا گیا۔ آپ نے معاشرہ میں خالص’’ دینی مرجعیت‘‘ کے کردار کو مؤثر بنانے کے لئے کافی اقدامات کئے تا کہ لوگ ’’حوزہ علمیہ‘‘ اور ’’دینی مرجعیت‘‘ کے درمیان رابطہ مستحکم رہے اوروہ اپنے دین ودنیا دونوں ہی کے تئیں اطمینان وامان میں رہیں،اسی طرح آپ اعتقادی، اخلاقی اور عرفانی اصولوں میں صبر واستقامت اور ثابت قدمی کی بہت تاکید فرماتے جنھیں علمائے اعلام نسل در نسل سختی سے محفوظ کرتے آئے ہیں کیونکہ انھوں نے ان چیزوں کو قرآن وسنت سے دینی میراث کے عنوان سے حاصل کیا ہے۔ اسی طرح آپ مذکورہ بنیادی اصولوں پر کاربندرہنے اوررنج ومحن کے طوفانوں اورمختلف اور گوناگوں فتنوں کامقابلہ کرنے میں ثبات وپائیداری سے کام لینے کی اہمیت پر بہت زوردیتے ۔ آپ نے’’ مرجعیت‘‘ کی ذمہ داری ایسے پیچیدہ اور نازک حالات میں قبول کی جس وقت دنیا کے مختلف گوشوں میں مؤمنین پر مصائب کے پہاڑ اندھا دھند نازل ہورہے تھے ایسے حالات میں جن باتوں کو آپ نے امتیازی اہمیت دی وہ حسب ذیل ہیں : الف: دینی حوزوی سرگرمیاں سب سے پہلے آپ نے’’ حوزہ علمیہ‘‘ کو امتیازی اہمیت بخشی، ’’ حوزہ علمیہ‘‘ یعنی وہ دینی ادارہ جوفتنوں اور دشمنوں کی گوناگوں سازشوں کا مقابلہ کرنے کی راہ میں اپنے دوش پر بارگراں کاحامل ہوتا ہے ، سیدنا المعظم نے طلبہ کی ایک ایسی نسل کو پروان چڑھانے اور با استعداد بنانے کے سلسلہ میں نہایت توجہ برتی جو تقوی وپرہیزگار ی کے ساتھ مختلف اسلامی علوم کے توشے کے مالک ہوں، لہٰذا آج ہم ویکھتے ہیں کہ حوزہ علمیہ میں آپ نے ایسے سینکڑوں طلاب کی تربیت کی ان کے لئے اچھے اساتذہ اور ایسے ضروری ساز وسامان زندگی فراہم کئے جن کی انہیں اپنے درس وبحث اورعلمی راہ کو آگے بڑھانے میں ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں ہر طرح کی اعانت کے علاوہ ان کے شہر یہ (وظیفہ) میں بھی اضافہ کیا،پھر طلاب حوزہ کے نام ایک پیغام صادر کیاجس میں بعض ان اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی جن کا ملتزم ہونا طلاب کے لئے لازم ہوتا ہے ،ہم یہاں پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

۱۔ تقویٰ کی رعایت اور معاشرہ میں نمونہ قرار پانا۔ آپ نے بارہا اس بات کی تاکید فرمائی کہ ایک عالم دین کو تقوی وخوف الٰہی کا پابند ہونا ضروری ہے تا کہ وہ اپنے طرز عمل اور رفتار وگفتار میں مؤمنین کے لئے نمونہ عمل قرار پائے ان کے نفوس اس سے مطمئن اور ان کا وثوق واعتماد اس کی بہ نسبت مستحکم اور حضرت حق سبحانہ سے ان کا ارتباط قوی ومحکم ہو آپ نے اپنے فتوے میں اس بات پر بھی زور دیاہے : ’’ ایک مرجع تقلید کے لئے جو عدالت شرط ہے وہ گواہ اور امام جماعت کی معمولی عدالت سے بالکل جدا ہوتی ہے‘‘۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں : ’’ اس کی عدالت اعلیٰ درجہ کی عدالت ہو اور وہ تقوی کے ایسے مرتبہ پر فائزہو جو عموماً اسے حکم شرعی کی مخالفت کرنے اور معصیت میں (چاہے صغیرہ ہو )واقع ہونے سے باز رکھے اس طرح سے کہ خدا نخواستہ اگر کبھی نفسانی خواہشات یا بعض شیطانی حالات کا غلبہ ہوجائے اوروہ اس کے نتیجہ میں معصیت کا شکار ہو جائے تو فوراً نہایت ندامت کے ساتھ بارگاہ خداوند رحیم وغفور میں توبہ وانابت کرلے‘‘۔ (۱) آپ طلاب حوزہ علمیہ کے نام ایک اور پیغام میں ایک دوسرے زاویہ سے اہمیت تقوی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ اہل علم کے لئے تقوی کے میدان میں دیگر افراد سے زیادہ رعایت کرنا لازمی ہوتا ہے ، کیونکہ شرعی احکام اور استدلالی کلیات کی تشخیص کے مقدمات یکساں نہیں ہوتے ہیں بلکہ ممکن ہے اکثرمقامات پرذاتی جذبات واحساسات [جب کہ ایمان اورتقویٰ ضعیف ہو]صادر شدہ احکام کو متأثر قرار دے سکتے ہیں۔ بسا اوقات ایک محقق مجتہد کا کسی حکم کی جانب میلان ہوتا ہے اور وہ اس کے لئے اپنے ذاتی اطمینان وقناعت کے مطابق دلیل طلب کرتا ہے ایسے میں وہ جس قدرت استدلال اور قوت استنباط سے بہرہ مند ہے تو وہ ایک شبہ کو دلیل کی صورت میں ظاہر کرسکتا ہے اور کچھ ایسی ہی صورت شخصی اطمینان وقناعت کی اس کے لئے بعض ان موضوعات خارجیہ میں بھی پیش آسکتیہے جن کی طرف کبھی کبھی اسے رجوع کرنا پڑتا ہے، ایسی صورت حال میں اگر کوئی چیزذاتی قناعت اور نفسیاتی خواہش سے اسے روک سکتی ہے تو وہ صرف تقوی ، ورع اور خوف وخشیت الٰہی ہے، کیونکہ یہی امور ہیں جن کے ذریعہ وہ خطابی واستحسانی شبہات اوراُن قطعی وواقعی دلائل کے در میان امتیاز اورفرق قائم کرسکتا ہے جو روز قیامت اللہ کے حضور اس کے لئے حجت قرار پاتے ہیں‘‘۔

۲۔علمی تدبر اور فکری گہرائی علمی تدبر اور فکری عمق شیعی فکر کی اصالت کے تحفظ میں بڑادخل رکھتی ہے نیز یہ مذہب اہل بیت222 کی راہ وروش کو سطحی اورمعمولی قرار پانے سے محفوظ رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے ،خاص کر یہ دیکھتے ہوئے کہ ایک عالم دین کے دوش پر شرعی موقف کی وضاحت اور دینی احکام ومسائل کے استنباط واستخراج کی سنگین ذمہ داری ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ طلاب حوزہ علمیہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ علماء وطلاب کے لئے ایسے متین دلائل او رمحکم براہین کی تلاش وجستجو کرنا لازم ہے جو بروز قیامت ،خدا کے روبرو حجت بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں نیز ضروری ہے کہ ایسے کلام واقوال پر اعتماد نہ کیا جائے جو بظاہر اچھےہوں،عوام الناس کو قانع ومطمئن کرتے ہوں اور ان کی رغبت وخواہش کے ساتھ مناسب وموافق ہوں لیکن ان کے پیچھے کوئی مستحکم دلیل نہ ہو‘‘۔

۳۔ اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونا پیغمبر اکر م اور اہل بیت اطہار 222 کی تأسی کرتے ہوئے اخلاق حسنہ وصفات حمیدہ سے آراستہ ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں : ’’ اہل علم کے لئے نبی اکرم وائمہ معصومین علیہم السلام عظیم نمونۂ عمل اوراسو�ۂحیات ہیں،یہ حضرات معصومین اپنے علو منزلت وعظمت مرتبت کے با وجود،ضعیف مؤمنین تک کی تعظیم کرتے،ان کے حق کی رعایت کرتے،ان کے حق میں کسی طرح کی کوتاہی برتنے کو پسند نہ کرتے اور کسی کے حق کے متعلق تساہلی اور چشم پوشی سے کام لینے کو کسی قیمت پر روا نہیں جانتے تھے‘‘۔

۴۔ اصالت کی حفاظت اور اصلی منابع سے پیوستگی اپنی اصالت کی حفاظت اور اصلی منابع سے ارتباط کا قائم رہنا بغیر کسی فکری جموداور عقلی تعطل کے ،کیونکہ زمانہ کے تقاضے کے مطابق ،عالم دین کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے معاشرہ بلکہ تمام معاشروں کے سامنے کھلی فکر اور کشادہ نظر کے ساتھ نمودار ہو کیونکہ اب جدید ذرائع ابلاغ اور ترقی یافتہ وسائل کے نتیجہ میں پوری دنیا ایک بڑے قریہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے لہٰذا عالم دین کو قطعی طورپرکشادہ نظر اور کھلی فکر کا حامل ہونا چاہئیے۔ نیز دین کی طرف دعوت دینے دینی مفاہیم کو جدید لب ولہجہ اورعصر حاضر کی روش کے مطابق سمجھانے اورپیش کرنے کے لئے جدید وسائل وامکانات اور نئے اسلوب وانداز سے استفادہ کرنا چاہئیے،لیکن ایسا ہرگز جائز نہیں ہے کہ یہ چیزیں امر استنباط میں موضوعیت واصالت کا عنوان حاصل کرلیں اور شرعی موازین اور دینی اصول سے ہٹ جائیں ورنہ اگر اس بات نے استنباط میں موضوعیت واصالت کا مقام اختیار کرلیا تو جیسے جیسے حالات بدلتے جائیں گے دین مسخ ہوتا جائے گا اور اس میں تبدیلی آتی جائے گی ۔ اس مطلب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’ مذہب امامیہ نے احکام و تعلیمات الٰہیہ کی جو محافظت کی ہے ،ا ن کو شریعت کے اصلی منابع سے اخذ کرنے کے سلسلہ میں جو خاص اہتمام برتا،پائیداری وثبات قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اور درازی مدت وشدت رنج ومصیبت کے با وجود زمانہ کے طوفانوں اور فتنوں کوہمیشہ چیلنج کیا ہے اس کی بابت اس مذہب حق کو یہ حق پہنچتا ہے کہ عزت وافتخار کے ساتھ اپنا سر بلند کرے‘‘۔ ۵۔شیعی اسلامی اعتقادات کو ثبات بخشنا آپ نے علماء ومحققین کو اعتقادی بحثوں کی جانب توجہ دینے اور شکوک وشبہات کا علاج کرنے کی دعوت دی اور تمام علماء ومحققین سے درخواست فرمائی کہ وہ اعتقادی بحثوں اور ان پر ہونے والے اعتراضات کو دفع کرنے کے سلسلے میں خاص توجہ دیں اور کوئی کسر باقی نہ رکھیں اور خود بنفس نفیس بھی بعض انحرافی افکار کا مقابلہ کرنے کے لئے تفصیلی اور تشفی بخش جوابات تحریر فرمائے جن کا مختلف حلقوں میں بڑاگہرا مثبت اثر رہا۔ اس بات کی گواہ آ پ کی معروف کتاب ’’فی رحاب العقیدۃ‘‘ہے جو ان اعتقادی سوالات کے تفصیلی جوابات پر مشتمل ہے جنہیں اردن سے شعبۂ الٰہیات کے ایک فارغ التحصیل محقق نے آپ کی خدمت میں بعنوان اعتراضات روانہ کیا تھا۔ اسی طرح آپ نے بناوٹی عقائد اور فاسد ومنحرف سیرو سلوک کا جوابی تفصیلی دلائل کے ذریعہ مقابلہ کیا جن میں کمال احتیاط ودور اندیشی سے کام لیا، باطل اور منحرف ادعا جیسے اہل بیت اطہار 222سے براہ راست ارتباط اوران کی بلا واسطہ نیابت وسفارت وغیرہ ،اسی طرح مراسم حج سے مشابہ بعض ایسے شعائر کی بدعت گزاری کی نسبت آپ نے شجاعانہ اور سخت موقف اختیار کیا جو کسی وقت بعض نادان اورسادہ فکر افراد حضرت امام حسین ۔اور جناب عباس ۔ کے روضوں کے ما بین نیز امام حسین ۔ کی ضریح مبارک کے اطراف میں انجام دیا کرتے تھے۔ الحمدللہ اس کے خلاف آپ کے سخت موقف اختیار کرنے اور توجیہی بیانات صادر کرنے کے بعد ان بدعتوں کا خاتمہ ہوگیا ۔ آپ نے اسی طرح ٹی، وی کے بعض فاسد پروگراموں اور فحش اعمال ورفتار کی نسبت دور اندیشی پر مبنی سنجیدہ موقف وسیع پیمانہ پر مثبت اثرات کا مظہر تھا ۔ ب: آپ کی سماجی سرگرمیاں پردیس میں رہنے والے شیعوں کی نسبت اہتمام وتوجہ مبذول کرنا ، خاص طور پر ان افراد کی نسبت جو دینی مراکز سے دور اور سخت حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں،چنانچہ ان افراد کے تئیں اہتمام برتنے سے متعلق آپ نے ضروری ہدایات پیش کیں،نیز ایک پیغام بھی ان کے نام روانہ کیاجو ان کی نصرت وحمایت اور غربت کی مشکلات کامقابلہ کرنے کی ترغیب وتشویق سے متعلق ہے ۔ اسی طرح آپ نے ایک پیغام گلگت (۱)کے مؤمنین کے نام روانہ کیا جوان کے اس نازک اوردشوار موقف کی حمایت سے متعلق ہے جو انہیں بعض ایسی جماعتوں کا سامنا کرنے کے لئے اختیار کرنا پڑتا ہے جن کا مقصد مسلمانوں کے در میان اختلاف، تفرقہ اور قتل وخونریزی کا ما حول پھیلانا اورر ائج کرنا ہے ۔ گلگت : ایک پہاڑی علاقہ ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے زیر اختیار کشمیر کے وسط اوراسلام آباد سے سات سو کیلو میڑکے فاصلہ پر واقع ہے وہاں کی بڑی اکثریت شیعہ اثنا عشری پر مشتمل ہے (اللہ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے )جو خاص حالات کے تحت تنگی ومشقت سے دوچار ہیں ۔ اورکمیونزم [communism]کے زوال کے بعد سابق سوویت یونین کے زیر نظر ملک آذربائیجان اورقفقاز میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ایک پیغام ارسال کیا ،اسی طرح پاکستان اورافغانستان(۱) اور دیگر شیعہ بستیوں پر توجہ کرنا ،قابل اہمیت ہے۔ ج:عالم اسلام کو ایک پیغام دشمنا ن اسلام کی ساز شوں کا مقا بلہ کر نے کی خاطر ،مشتر کہ اسلامی عمل کی تجویز پیشمؤمنین افغانستان کے خستہ وشکستہ حالات کو زیر نظر رکھنے سے متعلق آپ نے بڑی توجہ صرف کی اورمخیر افرادسے ان کی اعانت وحمایت کرنے کی خصوصی در خواست کی اورآپ کے فرزند سید ریاض الحکیم زید مجدہ نے حکومت طالبان کے زوال کے بعد افغانستان میں سخت اورپیچیدہ حالات کے باوجود آپ کی نمائندگی میں وہاں کا سفر کیا (جو اس بیچارے ملک کے مظلوم ومحروم مؤمنین کی نسبت دینی مرجعیت کے اہتمام وتوجہ کی عکاسی کرتا ہے )تا کہ قریب سے وہاں کے حالات و صورتحال سے با خبر ہوں اور ان کی مختلف صورت سے مدد اور کمک کرسکیں چنانچہ وہاں کے شیعیان اہل بیتؑ کے نفوس میں ان کے سفر کا بہت گہرا اور مثبت اثر قائم ہوا اوران سخت حالات میں دینی مرجعیت کے اس موقف اوراس قدراہتمام وتوجہ کو دیکھ کر اچانک چو نک سے پڑے ،غرض کہ آپ کے یہ طرز عمل ان کو گھیرے ہوئے مختلف قسم کے رنج ومحن کی شدت کو کم کرنے میں نہایت اچھا ثابت ہوا اور آج آپ کی طرف سے وہاں پر متعدد ثقافتی، اجتماعی اور خدماتی پروگرام جاری وساری ہیں ،اسی طرح آپ نے دیگر مما لک کے مو منین کے حا لا ت کو ہمیشہ زیرنظر رکھا ۔ کرنا ، اس سلسلہ میں آپ نے اسلامی سر گر میو ں کو مؤثر بنا نے کی غرض سے مختلف مکتب فکرکے تمام مسلمانوں کو کھل کر میدان عمل میں آنے کی دعوت دی ، نیز وطن سے دور رہنے والے جملہ افراد کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا : ’’آپ سب پر لازم ہے کہ خدمت اسلام کی خاطر دیگر تمام ایسے مسلمان گروہوں کی معیت میں جو صاحبان عقل ونظر اور اسلام کی بلند مصلحت کے خواہاں ہیں مشتر کہ عمل کی جانب توجہ مرکوز کریں اور بغض و عناد پر مبنی تعصب اور مکرو فریب سے پُر حرکتوں سے دور رہیں اس لئے کہ اسلام کے مشتر کہ اصولوں میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ،ہمارے اتفاق نظر کا تقاضاہے کہ ہم سب مل کر ان اصولوں کی خدمت کرنے ،انھیں استحکام وقوت عطا کرنے اور انہی کو مد نظر رکھتے ہو ئے بطور احسن و اکمل ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی بابت سنجیدگی ،اہتمام اور تو جہ سے کام لیں‘‘۔

د: قرآن واہل بیت علیہم السلام سے متمسک رہنا قرآن کریم ،نبی اکرمؐ اور اہل بیت علیم السلام کے ساتھ توسل و ارتباط کو اہمیت دینا آپ کی ذاتی سیرت میں نمایاں ہے ،آپ روزانہ کئی دفعہ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے ہیں،بہت سی حدیث کی کتابیں پڑھتے اور ان کا احاطہ علمی رکھتے ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے خطابات وہدایات میں کثرت کے ساتھ آیات قرآن و احادیث معصومین ؑ سے حوالہ پیش کرتے ہیں، ایک سوال کے جواب میں آپ نے قرآن کریم، معتبر کتب احادیث ،نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ پر علما و خطبا ء اور ذاکرین کے لئے اساسی منبع و مرجع کی حیثیت سے اعتماد کرنے کی ضرورت پر زور دیاہے۔

ہ : حضرت امام حسین علیہ السلام سے والہانہ محبت کرنا اہل بیت نبی ؑ کے ساتھ گہرا ارتباط قائم رکھنا اور ان کی ولا ومحبت کے جذبہ سے سرشار رہنا ،کہ یہ بات بھی آپ کی شخصیت میں مختلف موقعوں پرآپ کی ہدایات ، شعائر حسینی ومراسم دینی کی نسبت آپ کے خاص اہتمام وتوجہ مبذول کرنے سے واضح ہے ،ماہ محرم میںآپ کی سالانہ تقاریر او رخود بنفس نفیس مقتل امام حسین ۔ پڑھنے سے بھی روشن ہے، جب آپ نے بغرض علاج لندن کاسفرکیا تو آپ وہاں کے اسلامی مراکز کی مجلسوں میں حاضر ہوتے او رخود بھی مجلسیں پڑھتے چنانچہ مراسم عزاداری میں آپ کی شرکت نے لندن میں موجود غربت کی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے حلقوں میں گہرااثر ورسوخ قائم کیااوراہل بیت 222کے ساتھ ارتباط برقرار کرکے ذکر اہل بیتؑ کو زندہ رکھنے کے مسئلہ میں اہتمام برتنے اور مظلومیت اہل بیت 222کا بیان وتذکرہ کرنے کے سلسلہ میں بھی آپ کا طرز عمل بہت مؤثرثابت ہو ا۔

و: اہل بیت علیہم السلام سے ایک خاص ارتباط قائم رکھنا اہل بیت ؑ کے چاہنے والوں کے ساتھ مستحکم رابطہ پر زور دینا ،چنا نچہ آپ ہر فرصت سے استفادہ کرتے اور اس سلسلہ میں تقریریں اوربراہ راست خطابات کے ذریعہ نجف اشرف میں ارشادات وہدایات پیش کرتے حتی کہ علاج کی غرض سے سفر لندن کے دوران جب کہ آپ کی صحت ناسازگار تھی آپ نے وہاں کے پردیسی مؤمنین کوارشادات وہدایات دینے سے دریغ نہ کیا ،نیز شام کے طلاب اور آپ سے ملاقات کے لئے آنے والے مؤمنین کو بھی آپ نے ہمیشہ اپنی نصیحتوں اورہدایتوں سے فیض پہنچا یا انہیں خالص دینی واخلاقی اصولوں ،اسلامی تمدن و تہذیب اوراہل بیت 222کی روش میں ڈھلے ہوئے اسلامی اصولوں کی مسلسل تاکید فرمائی ۔

ز: فقراء کی حمایت ضرور تمند اورتنگدست کنبوں کی مدد کابیحد خیال رکھنا ،کہ یہ بات آپ کی طرف سے مختلف انداز میں ان کی مدد کرنے ،از جملہ عراق کے ہزاروں غریب کنبوں کے لئے منظم طریقہ پر ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے سے عیاں ہے ۔

ح: بوسیدہ مقدس مقامات کی تعمیر بہت سے ایسیمقدس مقامات کی تعمیر ومرمت کے لئے اہتمام واقدام کرنا جو ضروری نگرانی نہ ہونے کے باعث بوسیدہ و شکستہ ہوچکے تھے مثال کے طور پر مسجد سہلہ کی تعمیر کاعمل نیز شام کے متعدد شہروں میں بے شمار مسجدوں کی تاسیس وتعمیر کاکام ۔

ط: تبلیغ دین کی حمایت اور مبلغین کی پشت پناہی کرنا دینی تبلیغ کی حمایت وپشت پناہی کرنااس سلسلہ میں پاکستان ، ہندوستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں نئی آزاد جمہور ی ممالک ،شام کے شہروں ،عراق کی شمالی علاقوں ایران میں مقیم عراقی پناہ گزینوں کے کیمپوں اور بعض ایرانی علاقوں میں مبلغ روانہ کرنے اور تبلیغی سرگرمیوں کی کمک کرنے جیسے پروگرام شامل ہیں،اسی طرح مختلف علاقوں،بالخصوص محروم وپسماندہ علاقوں میں دینی وتربیتی اجتماعات کی برگزاری کے لئے کمک کرنا اوراسلامی ملکوں خاص کر سو ویت یونین کے خاتمہ کے بعد وسطی ایشیا کی جمہوری ممالک میں اہل بیت عصمت وطہارت 222 کی تہذیب وثقافت کو نشر کرناآپ کے پروگرام میں شامل ہے چنانچہ اسلامی ملکوں او رمذکورہ جمہوری مملکتوں میں وہیں کے طلاب کو مبلغ کی حیثیت سے روانہ کرنے اور وہاں پر مختلف قسم کی تبلیغی سرگرمیوں کی حمایت وپشت پناہی کرنے کی ذمہ داری آپ کے دفتر سے متعلق ہے ۔

ی: دنیا کے مذہبی اداروں سے رابطہ برقرار کرنا امریکہ اوریورپ کے اسلامی مراکز واداروں سے براہ راست رابطہ برقرار رکھنا ،ان کے واسطے مختلف اسلامی موضوعات پر کتابیں فراہم کرنا وہاں کے مؤمنین کی جانب سے آنے والے گوناگوں سوالوں کے جوابات دینا ،وہاں کے پر دیسی مسلمانوں کی اکثر مشکلات کوحل کرنے کے سلسلہ میں آگاہانہ طور پر حصہ لینا ،دینی مرجعیت اورحوزہ علمیہ کے ساتھ ربط بر قرار رہنے کی غرض سے دینی مناسبتوں سے ہدایات پر مشتمل بیانات صادر کرکے وہاں کے لئے ارسال کرنا اور یورپ میں موجود غریب الوطن مسلمانوں کے در میان دینی حالت اور اسلامی اخلاق ورفتار کو ثابت واستقرار بخشنے کے مقصد سے مذکورہ مراکز واداروں کی بعض سرگرمیوں کو مؤثر بنانا ،چنانچہ مختلف سطح پر اس ارتباط و سرگرمی کی مذکورہ مراکز کی نسبت مثبت تاثیر دیکھنے میں آئی اورآپ کی سعی پیہم اور مسلسل کوشش کے نتیجے میں آپ کے دفتر سے وابستہ انٹرنیٹ کے مراکز کو اصیل اور متنوع اسلامی علوم وثقافت کے مواد،عربی،انگریزی اوراردو زبان میں فراہم کرنے کا عمل پورا کیا گیا تا کہ اس کے ذریعہ اسلامی فکر،اہل بیت 222 کی راہ وروش اور ان کے علوم ومعارف کو دنیا کے مختلف گوشوں میں پہنچایا جا سکے اور مؤمنین وغیرہ کے طرح طرح کے فقہی و اعتقادی سوالات کے جوابات دئے جاسکیں۔

ک: عالم اسلام سے مربوط حوادث کے مقابلہ میں آپ کا کردار عالم اسلام اور اہل بیت 222کے چاہنے والوں سے مربوط حوادث وواقعات اور در پیش خطرات کو زیر نظر رکھنا اور دینی مرجع کی جانب سے سنجیدہ اور موزوں قدم اٹھانااور مناسب موقف اختیار کرنا ،چنانچہ ہم ذیل میں بعض کئے گئے اقدامات کا ذکر کررہے ہیں: ۱۔ غاصب صہیونی دشمنوں کے ظلم وبربریت کا فلسطینی مسلمان جو ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں ان کی حمایت وپشت پناہی کرنا اور بیت المقدس نیز دیگر فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے نا جائز اور غاصبانہ قبضہ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرنا۔ ۲۔غاصب اسرائیلیوں کے قبضے سے جنوبی لبنان کو آزاد کرانے کے مسئلہ میں ملت لبنان کی حمایت وتائید کرنااور جنوب لبنان کو آزاد کرانے میں حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت کو جسے نمایاں فتح وکامرانی نصیب ہوئی مبارک اقدام قرار دیتے ہوئے اس کے لئے تبریک وتہنیت پیش کرنا۔ ۳۔ افغانستان میں شیعیان اہل بیت 222اور نہتے شہریوں کے خلاف،طالبان گروہ کی طرف سے کئے گئے اجتماعی قتل و خونریزی و غیرہ جیسے جرائم کی سخت مذمت کرنا ۔

۴۔ پاکستان میں’’ سپاہ صحابہ‘‘ کی جانب سے شیعیان اہل بیت 222کے خلاف اندھا دھندکشت و کشتار انجام پانے اور مسجدوں اور امام بارگاہوں کوبم دھاکوں سے ویران و تباہ کرنے کے پلید عمل کی مذمت کرنااور حکومت پاکستان کے صدر اور وزیراعظم سے اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے سد باب کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کرنا چنانچہ اس کے رد عمل میں پاکستا ن کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ایک خط میں اظہارکیا کہ ہم دینی مرجعیت کے قلق واضطراب کو درک کرتے اورسمجھتے ہیں اور ہماری حکومت ان مجرمانہ اقدامات کی روک تھام کرنے اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہے ۔ ۵۔ انڈونیشیامیں وہا بیوں کی طرف سے شیعیان اہل بیت 222 کوکافر قرار دینے کی سازش کو ناکام بنانے اور ۱۴۱۶ ؁ھ کے آس پاس وہابیوں کی سرگرمیوں پرپا بندی عائد کئے جانے کے سلسلہ میں وہاں کیجماعت ’’ نہضۃ العلماء ‘‘کے رئیس صدرعبد الرحمن وحید کے موقف اور طرز عمل کو سراہنا اور اس کی قدرے افزائی کرنا،چنانچہ اسی حوالے سے سید نا المعظم مد ظلہ کے دفتر نے مذکورہ جماعت کے صدر کے موقف کی نسبت خصوصی تشکر نامہ ان کی خدمت میں ارسال کیا جس کا مثبت اثر ہوا۔ ملیشیا میں ۱۹۹۰ ؁ء کی دہائی میں راہ اہل بیت222سے منحرف و مخالف جماعتوں کے اثر و رسوخ کے نتیجہ میں حکومت کی جانب سے شیعیان اہل بیت 222کو حراست میں لینے پر مجلس اسلامی شیعہ (لبنان )کے آیۃ اللہ شیخ محمد مہدی شمس الدین قدس سرہ کے توسط سے حکومت ملیشیا پر دباؤ ڈالنااور اس نسبت سے دینی مرجعیت کے غم وغصہ اور قلق و اضطراب کو وہاں کی حکومت کے گوش گزار کرنا ۔ ۶۔مفتی جامع از ہر (مصر) کی جانب سے شیعیان اہل بیت 222 کو کافر گرداننے کی بابت اس کی بیہودہ تصریحات کی سخت مذمت کرناایسی نازیبا حرکتوں کی تکرار نہ ہونے کے لئے جناب شیخ مہدی شمس الدین قدس سرہ کے ذریعہ مفتی جامع از ہر (مصر ) پر دباؤڈالنے کے متعلق کھل کر گفتگو کرنا جن کے جواب میں مہدی شمس الدین مرحوم نے اظہار تشکر کے ساتھ اس مسئلہ پر سنجیدگی سے اقدام کرنے کا وعدہ کیا ۔ ۷۔ اسلام کے خلاف بعض یورپی ممالک کے رہنماؤں کے موقف اورتصریحات کی ،نیز یورپ میں موجود غریب الدیار مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز اقدامات کی سخت مذمت کرنا ۔ یہ تھے آپ کے بعض کارنامے اور اقدامات ،ان کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے شجاعانہ اور ذمہ دارانہ موقف واقدامات عمل میں آئے جن سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عالم اسلام کے مستقبل اور مسلمانان عالم کی سر نوشت سے جڑے ہوئے رونما ہونے والے حالات وواقعات پرنظارت ونگرانی رکھنے کے لئے دینی مرجعیت ہمیشہ مید ان علم میں حاضر اور پیش پیش رہتی ہے ۔ قید خانہ میں موصوف کی زندگی ۲۵؍رجب ۱۴۰۳ ؁ھ ،۱۸؍ذیقعدہ ۱۴۱۱ ؁ھ مطابق ۹؍۵؍ ۱۹۸۳ ؁ء ، ۷؍ ۶؍ ۱۹۹۱ ؁ء

تمہید اس عظیم اور بابرکت شخصیت نے اپنی زندگی کے جو اہم ترین ایام صدامی قیدخانوں میں گزارے ان کو اب تک عراقی حکومت اور وہاں پرامنیت نہ ہونے کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیان نہیں کیا گیا تھا جب کہ آپ کے وہ حالات اور طرح طرح کی اذیتوں کے باوجودعلمی سرگرمیاں آئندہ نسلوں کے لئے نہایت عبرتناک اور آموزہیں،لیکن اس وقت جب کہ صدامی حکومت ختم ہوچکی ہے لہٰذا ہم بطوراختصار ان گوشوں کوبیان کررہے ہیں جو قارئین کے لئے سبق آموز بھی ہیں اور مشعل راہ بھی۔ حضرت آیۃ اللہ سید محمدسعید الحکیم دام ظلہ نے اپنی ابتدائی زندگی ہی سے حوزہ علمیہ سے وابستہ ہونے کے بعد محسوس کر لیا تھا کہ اسلامی امت کن کن مشکلات اور آلام ومصائب سے دوچار ہے ، اس لئے آپ نے اپنے کو ہر طرح کی مشکل سے نمٹنے کے لئے آمادہ کرلیا تھا اور چونکہ باہر سے رونماکئے گئے انحرافی افکار ونظریات اور یکے بعد دیگر ے بر سر اقتدار آنے والی ڈکٹیٹر اورمخالف دین حکومتوں سے مقابلہ کرنے کی ذمہ داری علمائے دین کی تھی اور ہے ، اس لئے آپ کی دور اندیشی اور فراست نے کمیونزم کے روشن خیال افکار و نظریات کی چالبازی کو فوراً تاڑ لیا جس کی سابق سوویت کی جانب سے عراق میں حمایت اور پشت پناہی ہورہی تھی اور نجف اشرف کی ان علمی نشستوں میں جن کے وجود سے وہاں کا ماحول خوشگوار رہا کرتا تھا مستقل جلسات اورمسلسل بحث ومباحثات کے ذریعہ اس ذمہ داری کو آپ نے اپنے دوش پراٹھا لیا اورادراک وشعور بھرے خالص افکار ونظریات پیش کرنا شروع کردئے ۔ عراق میں بتاہ کن اشتراکیت (سوشلزم )کے پھیلا ؤکے دوران جسے سابق سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی آپ نے ’’علما ء جماعت ‘‘کے ساتھ بھی بھر پور تعاون کیا جو آپ کے جدامجد حضرت سید محسن الحکیم طاب ثراہ کے زیر نگرانی کام کررہی تھی ،چنانچہ یہ ’’علما ء جماعت ‘‘اپنے جاری کردہ بیانات کو نشر کرنے کے سلسلہ میں آپ ہی سے مدد لیتی کیونکہ آپ کی شجاعت اور جرأت مندانہ اقدام سے وہ بخوبی آگاہ تھی ۔ ۱۹۶۳ ؁ھ میں ڈاکٹر عبدالسلام محمد عارف کے عراق پراقتدار اور اس کی جانب سے اشتراکی قوانین مسلط کئے جانے کی کوشش کے بعد مرجع اعلی حضرت سید محسن الحکیم طاب ثراہ اور حوزہ علمیہ کے جملہ علماء وفضلا ء نے ظالم حکومت کی اس کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ڈاکٹر عبدالسلام کو بھیجے گئے اس مذمت آمیزنامہ کے اوپر دستخط کرنے والوں میں جناب موصوف سید محمد سعید الحکیم دام ظلہ کی ذات بھی شامل تھی جس میں عراق پر اشتراکیت مسلط کرنے اور قوانین اشتراکیت نافذ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی ۔ عراق میں’’ بعث پارٹی‘‘ کے اقتدار میں آنے اور کھوکھلی اوربے بنیاد باتوں کے بہانے،عوام کی گرفتاری، قتل و پھانسی جیسی کاروائیاں شروع ہونے کے بعد جن کا مقصد عراقی عوام کو خوف ووحشت میں مبتلا کرنا اور ملت عراق کے قدرتی ذخائر اوران کی سرنوشت پر تسلط حاصل کرنا تھا ۔ نیزاس وقت جب کہ اکثر افراد کو اس ظالم ’’ بعث پارٹی‘‘ کے نا پاک ارادوں اور پلید منصوبوں کا ابھی صحیح علم نہ تھا موصوف دام ظلہ نے ابتداء ہی سے جلسات ومباحثات کے ذریعہ لوگوں کو خبردار کرنا شروع کردیا : ’’ دیکھو !اس ظالم اورویران کن سیلاب کی زدمیں آکر کہیں بہہ نہ جانا اور اس کی جھوٹی تبلیغات او رغلط پروپیگنڈوں سے متاثر نہ ہوجانا‘‘ ۔ غرض کہ آپ شروع ہی سے لوگوں کو بعثیوں کے پلید وجود اور ان کی خطرناک سازشوں سے چوکنا اور ہوشیار رہنے کی باربار تاکید فرماتے رہے،چنانچہ بعد میں جب حقیقت کا صحیح انکشاف ہوا تو حوزہ علمیہ کے بہت سے فضلاء اوردیگر دانشوروں نے آپ کے اس وقت کے موقف اور آپ کی ہدایات وتاکیدات نیز تجزیہ وتحلیل کے صحیح اور دقیق ہونے کو سراہا اسی لئے ہم نے دیکھا کہ ۱۹۶۸ ؁ ء میں بعثی حکومت نے عراق پراپنا تسلط برقرار کرتے ہی آپ پرسفر کرنے کی پابندی لگادی اوراس کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ ۱۹۷۴ ؁ ء میں پہلی بار یہ پابندی ہٹائی گئی اورآپ کو حج بیت اللہ الحرام کے لئے سفر کی اجازت دی گئی پھر تھوڑے ہی عرصہ بعد یہ پابندی آپ پر دوبارہ عائد کردی گئی اورآپ کو شدید طور پر زیر نظر رکھا جانے لگا جس کا سلسلہ ظالم بعثی حکومت کے باقی برسوں تک بدستور قائم رہا ۔ ۱۹۷۷؁ ء کے ماہ صفر کے حوادث میں جب کہ ظالم بعثی حکومت نے پا پیادہ امام حسین ۔ کی زیارت کے لئے جانے پرروک لگادی (جو کہ عراق میں شیعیان اہل بیت222کے در میان ماہ صفر میں رائج اورمرسوم ہے )اور یہ اعلان کرادیا کہ عراق کے مختلف شہروں سے زیارت کے لئے روانہ ہونے والوں کابعثی فوج ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں او ربکتربند گاڑیوں وغیرہ کی مدد سے سخت مقابلہ کرے گی ،ایسے میں موصوف دام ظلہ نے اپنے خاندان کے بعض فضلاء اورنوجوانوں کی ہمراہی میں (جن میں سے بعض کوبعد میں شہید بھی کردیاگیا )پکے ارادہ کے ساتھ اپنا پا پیادہ سفر زیارت بدستور جاری رکھا یہاں تک کہ کربلا ئے معلی او رحرم امام حسین ۔ تک پہنچے ا و رحکومت کے پہروں اوربے شمار مسلح فوجیوں کی کوئی پروانہ کی۔ زیارت کے لئے پا پیادہ روانہ ہونے والے مؤمنین کی صفوں میں قتل وغارت گری اور ان کی اجتماعی طورپر گرفتاری کی کاروائیوں کے بعد موصوف کوایک سربرآوردہ شخصیت کی جانب سے (جنہیں بعض دوستوں کے ذریعہ حکومت کے فیصلے کا علم ہوچکاتھا )خبر ملی کہ موصوف کا نام بھی حکومت کے مطلوب افراد کی فہرست میں ہے ،لہٰذا آپ کو مجبوراً فرزندوں سمیت اپنا گھر چھوڑنا اورکچھ عرصہ کے لئے ایک ایسے کھنڈر میں روپوش ہونا پڑا جس کے محل وقوع کاآپ کی زوجۂ محترمہ گرامی کے علاوہ کسی کو علم نہ تھا چنانچہ وہی خاتون تھیں جو مخفی طور پر حکومت کے کارندوں اوراس کے ہر جگہ پھیلے ہوئے جاسوسوں سے نظر بچا کے کسی طرح وہاں پر آمد ورفت رکھتی تھیں۔ زیارت امام حسین ۔کے لئے پاپیادہ روانہ ہونے کے جرم میں گرفتار کرلئے جانے والوں میں سے بعض کے خلاف سولی اور بعض کے متعلق عمر قید کے جائرانہ احکام جاری ہونے نیز دراز مدت کے بعد حکومت کی جانب سے مذکورہ قضیہ کی فائل بند کئے جانے کے بعد تک اس خرابہ (کھنڈر)میں آپ اور آپ کے فرزندوں کے روپوش رہنے کاسلسلہ جاری رہا ۔ ۱۷؍ جولائی ۱۹۷۹؁ء کو وحشی مطلق العنان صدام تکریتی کے اقتدار پر قابض ہونے اور اپنے سلف احمد حسن البکر کو اقتدار سے ہٹانے کے بعدتمام عراقیوں بالخصوص حوزہ علمیہ نجف اشرف اور علماء وفضلاء پر دباؤبڑھ گیا اور حکومت کی قساوت وسنگدلی میں شدت آگئی ( اگرچہ یہ کام عالمی کفر کی طاقتوں اور ان کے دم چھلوں کے اشاروں پر اسی لئے انجام پایا تھاکہ صدام کا سلف جن سیاہ کارناموں اور گھناؤنے اقدامات سے عاجز رہ گیا تھا یہ خلف [صدام]انہیں آخری مرحلے تک پہنچاسکے) اس کے باوجود موصوف نے حوزہ علمیہ ہی میں مقیم رہنے اورعراق کو ترک نہ کرنے کو ترجیح دی اوراس پائیدار علمی وتہذیبی مرکزکے تحفظ وبقا کے عمل میں شریک رہنے کی خاطر تمام سختیوں،مشقتوں اور خطروں کو مول لیا ۔ نجف اشرف میں علماء وافاضل پر حکومت کادباؤ تھا آپ نے اس کا سختی سے مقابلہ کیا بلکہ دوسروں کوبھی حکومت کی مجرمانہ کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اورجوش دلاتے،چاہے اسکی جوبھی قیمت اداکرنا پڑے ۔ ایران و عراق جنگ کے دوران توحوزہ علمیہ نجف اوروہاں کے علماء پر حکومت کادباؤ اپنی انتہا کوپہنچا ہوا تھاخاص کر اس وقت جب کہ اچانک مسلط کردہ جنگ کے ذریعہ ایران کے تازہ اسلامی انقلاب کو نابود کرنے سے متعلق صدام کا سارا نقشہ نقش برآب ہوتا نظر آیا ،چنانچہ جس وقت ایرانی افواج کے حملوں نے شدت اختیار کی تو ظالم ومجرم صدام نے بغداد میں علمائے مسلمین کے لئے کہ وہ حاضرہوں اورپروپیگنڈہ کاروائی کے طور پر اس کی حکومت اورجنگ کی تائید وحمایت کا اعلان کریں ۔ نیز اس کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ صدام کے بقول ایرانی باغیوں کے خلاف علماء کے فتوئ جہاد کو دلیل بنا کر قوی اور رضا کارانہ فوج کے نام پر مزید عراقیوں کو محاذجنگ پر روانہ کیا جاسکے لہٰذا حوزہ علمیہ نجف کے علماء پر اس کا نفر نس میں شرکت کے لئے دباؤ ڈالنا واضح بات تھی، اس مسئلہ میں اس کی ساری توجہ خاندان آل حکیم پر مرکوز تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خاندان کا ملک وبیرون ملک میں نمایاں احترام تھا نیز صدام چاہتا یہ تھا کہ اس خاندان کے چشم وچراغ آیۃ ا... سید باقر الحکیم کے توسط سے یہ ثابت کردے کہ وہ ہماری حکومت کے مخالف نہیں ہیں۔ اس وقت کچھ اس طرح کی خبریں بھی شائع ہورہی تھیں کہ صدام مذکورہ کانفرنس کی صدارت ،سادات آل حکیم سے تعلق رکھنے والے کسی بزرگ عالم دین کے سپرد کرنے کا عزم رکھتا ہے نیز اس کا ارادہ ہے کہ آل حکیم کو ان وفود میں شامل کرے جن کو کانفرنس کے بعد اسلامی حکومتوں میں صدام وجنگ کی حمایت کرنے کے لئے بھیجاجائے اسی لئے حکومت کی جانب سے آل حکیم کے پاس متعددخط آئے جن میں ڈرایااور دھمکایا بھی گیا لیکن جب حکومت نے دیکھا کہ خاندان آل حکیم کاکوئی فرد شرکت کے لئے تیار نہیں تواس نے شہید حجۃ الاسلام والمسلمین السید محمد رضا الحکیم فرزند سید محسن الحکیم قدس سرہ کے مکان پر نجف کے امن ڈاکٹر (معروف بہ ابی مخلص )کو جو تکریت کارہنے والا تھا ایک اور شخص کے ہمرا ہ بھیجا جواس سے بڑا منصب دارتھا اور صدام کا خاص نمائندہ تھا، اس نے خود کو پہچنوایا نہیں تھا یہ بھی رعب ووحشت ایجاد کرنے کے لئے حکومت کا ایک طریقہ تھا ۔ خلاصہ یہ کہ ان لوگوں نے شہید محمد رضا الحکیم کو یہ پیغام پہنچا یا کہ کانفرس میں آ پ کے خاندان کی مشارکت پرصدام کا شدید اصرار ہے اور اگر شرکت سے انکار ہوا تو آپ کے خاندان کو حکومت کا دشمن سمجھا جائے گا اور عدم شرکت کی بابت کسی قسم کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا یہ تھا صدام ملعون کا پیغام ۔ لیکن سید محمد رضا الحکیم نے جو کہ جرأت وشجاعت میں معروف ومشہور تھے اس کے گوش گزار کردیا کہ ہمارا خاندان اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا چاہے جوبھی ہوجائے اور جس قدر بھی دباؤ ڈالا جائے ۔ غرض کہ اس کے مسلسل اصرار وتہدید اور سید محمد رضا الحکیم کے مسلسل انکار وتردید کے نتیجہ میں طرفین کے بیچ گرم بحثہ بحثی شروع ہوگئی یہاں تک کہ سید محمد رضا الحکیم نے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا : اے ابو مخلص! تو بالو اُبال رہا ہے !! اس مثل کو عراقی اس جگہ استعمال کرتے ہیں جہاں بیہودہ اصرار وتہدید سے کوئی اثر پڑنے والا نہ ہو یعنی اے ابو مخلص تو جان لے کہ تیرے اصرار وتہدید سے ہماری صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، آخرکار وہ لوگ غصہ اور مایوسی کے ساتھ وہاں سے نکلے تاکہ جاکر اپنے ظالم کو بتادیں کہ جس مہم کے لئے انھیں بھیجاگیا تھا اس میں وہ ناکام رہے ہیں ۔ اب اس کانفرنس کے انعقاد کے تقریباً دو ہفتے بعد حکومت کو سادات آل حکیم کی عدم مشارکت کے باعث ناکامی کا احساس ہواتواس خاندان کے اس باوقارموقف اختیار کرنے کے نتیجہ میں جو عراق کی تاریخ نومیں ایک نمایاں کارنامہ کی حیثیت سے ثبت ہوا۔ صدام نے پورے خاندان کی گرفتاری کا فرمان جاری کیا تاکہ مذکورہ موقف اختیار کرنے کاانتقام لے سکے اوریوں بھی حوزۂ علمیہ عراق میں اس وقت کسی کو علمی ودینی لحاظ سے اتنی واضح مرکزیت حاصل نہ تھی جو آل حکیم کو حاصل تھی کیونکہ آل حکیم سے تعلق رکھنے والے بزرگ وجوان کی تعدادبے شمار تھی جو پورے طورسے حوزۂ علمیہ ہی سے منسلک تھے اور یہ بات حکومت کے لئے بے حد غیظ وغضب کاسبب تھی ۔ چنانچہ صدام کی طرف سے گرفتاری کے فرمان کے بعد۲۶رجب ۱۴۰۳ ؁ھ کو شب میں اچانک آل حکیم کے گھر پر حملہ کردیا اور اس خاندان کے تقریباً ۸۰ افراد کو گرفتار کرلیا، جن میں جوان ، بوڑھے اور نوجوان بچے حتی کہ بعض خواتین بھی شامل تھیں آل حکیم کے ان اسی [۸۰]افراد میں سے ساڑے آٹھ سال کی قید با مشقت سے رہائی کے موقع پر صرف ۴۴ لوگ باقی رہ گئے تھے ،ان میں سے بعض لوگ کو شہادت کے درجہ پر فائز ہوگئے اور کچھ پہلے آزاد کردئے گئے تھے۔ عراقی مدیریت امن عامہ کا قید خانہ حضرت آیۃ ا... السیدمحمد سعید الحکیم دام ظلہ ،آپ کے والد گرامی آیۃ اللہ السید محمد علی الحکیم مدظلہ، بھائی اور بیٹے گرفتار ہونے والوں میں سے تھے ۔ عراقی مدیریت امن عامہ کی نہایت بری اور خوفناک جیل میں اس خاندان سے تفتیش کی گئی ،اس مخفی تفتیش میں سب سے زیادہ سادات آل حکیم کو اذیت دی گئی ، السید سعید الحکیم ان افراد سے تھے جنھیں سب سے زیادہ اذیت اور تکلیف دی گئی ۔ مگراللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے آپ کو ظالموں کے شرسے محفوظ رکھا۔ حضر ت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدسعید الحکیم دام ظلہ العالی کو تختہ دار سے نجات دلانے میں جو اسباب وعلل کار فرما تھے ان میں سب سے اہم عامل یہ تھا کہ حکومت صدام کی جانب سے سادات آل حکیم پر اسلامی قومی کانفرنس میں شرکت کے لئے دباؤمیں شدت پیدا ہوجانے کے بعد بعض بزرگوں نے اس موضوع پر غور وخوض کرنے کی غرض سے ایک نشست تشکیل دینے کی تجویز رکھی اور موصوف سے بھی اس میں شرکت کی گزارش کی لیکن آپ نے اس نشست میں حاضر ہونے سے صاف انکار کردیا اور فرمایا: میں شرعی اعتبار سے مذکورہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر مطمئن ہوں اور اس اطمینان کے بعد کانفرنس میں شرکت کرنے کے موضوع پر غوروخوض کرنے کی مجھے کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی خصوصاًً اس بات کے پیش نظر بھی کہ مجھے توقع ہے کہ نشست برگزار کرنے کی صورت میں میرے پورے خاندان پر کڑی نظر رکھی جائے گی، حکومت کے سی آئی ڈی شدید طورپر اس اجتماع کو زیر نظر رکھیں گے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ میرے خاندان سے انتقام لینے کی کاروائی میں شدت آجائے گی ۔ مدیریت امن عامہ میں ایک عرصہ تحقیق ہونے کے بعد آپ نے خود کوجیل کی فضا کے ساتھ ہم آہنگ کرلیا اور باقی گرفتارہونے والے افراد کو مرضی معبود کے سامنے سرتسلیم خم کرنے ،اپنے امور کو اللہ کے سپرد کردینے کی اہمیت پر زور دیتے تھے نیز حکومت کے سامنے جھکنے اور اس کے ساتھ کسی طرح کا ساز باز کرنے کی فکر کو ٹھکراتے ہوئے عزم و صبر کی تلقین کرتے تھے ۔ چھوٹے سے قرآن مجید کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن حکومت کے کارندوں نے درس۔ گزشتہ صفحہ کا بقیہ :آپ نے جیل ہی میں تفسیر قرآن کا درس شروع کیا جب کہ وہاں ایک بوسیدہ اورچنانچہ ہوابھی وہی جس کی موصوف کو توقع تھی یعنی جس جگہ یہ جلسہ برگزارہو ا اسے زیر نظر رکھا گیا تھا بعد میں شرکت کرنے والوں کو حراست میں لے لیا گیااور مدیریت امن عامہ میں موصوف سے باز پرس کی گئی تو باز پرس کرنے والے آفیسر نے پہلے تو یہ خیال کیا کہ اس میٹنگ میں آپ بھی شریک تھے، لیکن تحقیق وجستجو کے بعد معلوم ہوا کہ آپ اس میں شریک نہیں تھے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حکومت کو یہ گمان ہوگیا کہ مذکورہ میٹنگ میں شرکت کے لئے خاندان حکیم کی طرف سے آپ کو بلایا ہی نہیں گیا تھا چونکہ تشکیل اجتماع کی تجویز پیش کرنے والوں میں آپ کا نام اصلاً موجود نہ تھااسی بنیاد پر آپ حکومت کے حکم اعدام[پھانسی] سے نجات پاگئے۔ اور حکومت کو اس بات کی خبر ہی نہ ہوسکی کہ اسلامی قومی کانفرنس میں عدم مشارکت کے بارے میں پہلے ہی سے قطعی فیصلہ تھا ۔ خاندان حکیم کی طرف سے منعقدہ اجتماع میں آپ کی عدم شرکت کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے لئے مذکورہ حکومتی کانفرنس میں عدم مشارکت کا موضوع اتنا روشن تھا کہ اس میں کسی طرح کے غور خوض اور تدبر وتفکر کی ضرورت نہ تھی۔ کے شروع ہونے کو محسوس کرلیا اور ا س بارے میں بھی جستجو کی گئی چونکہ صدامی حکومت کے نزدیک قیدخانے میں کسی طرح کی دینی اور اسلامی سعی وکوشش نیز تعلیم وتربیت سے آشنائی کی سزا سولی پر چڑھا دینا تھا لہٰذا آپ نے مجبوراً درس ترک کردیا اگر چہ پوشیدہ طور پر عملی مباحث کی نشستوں کا سلسلہ باقی رہا ۔ اسی طرح آپ نے وہاں پر اپنی تقریرات کے ذریعہ دینی مناسبتوں کو زندہ کیا اور جیل میں موجود خاندانوں کے نوجوانوں کو وہ مذہبی قصیدے یاد کرائے جو آپ کو حفظ تھے تاکہ انھیں ان محفلوں اور مجلسوں میں پڑھ سکیں جو نہایت مخفی طورپر حکومت کے کارندوں کی نظروں سے بچ بچاکرمختلف مناسبتوں پر قید خانوں میں برپاکی جاتی تھیں۔ ابوغریب نامی جیل کی تنگ وتاریکقید خانے ۱۹۸۵؁ ء کے تیسرے مہینے ’’مارچ‘‘میں حکومت نے حراست میں لئے گئے سادات آل حکیم سے ۱۶؍ افراد دومرحلوں میں سولی دینے کے بعد بقیہ کو مدیریت امن عامہ کے عارضی جیل سے نکال کر ابوغریب(۱)نامی جیل کے مخصوص تنگ وتار،بندحصوں یہ جیل بہت بڑی ہے جو مختلف حصوں پر مشتمل ہے: ۱۔ایک حصہ وہ ہے جہاں پولیس والوں کو جیل میں ڈالاجاتا ہے ۔ ۲۔ایک حصہ وہ ہے جہا ں نوجوانوں کو جیل میں ڈالاجاتا ہے ۔ ۳۔ایک حصہ وہ ہے جہاں ہلکے فیصلوں کی جیل ہے ۔ ۴۔ایک حصہ وہ ہے جہاں بھاری فیصلوں کی جیل ہے ۔ میں قید کردیااورانھیں ایک ایسی جگہ لے گئے جو ق۲؍ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اس کے بعد سب کو اکھٹا کیااور دو گروہ میں تقسیم کرنے کے بعدایسی بند اندھیری کوٹھریوں میں ڈال دیا جن میں ایک دوسرے کا دیداراور ملاقات کا کوئی امکان نہ تھا ۔ اگرچہ ایک اعتبار سے ان اندھیری کوٹھریوں میں زندگی نہایت دشوار تھی ( جن کی تفصیلی تشریح کی سردست گنجائش نہیں ہے )لیکن دوسری طرف سے وہاں پرسادات آل حکیم کے لئے علمی ، تربیتی ، تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے سرگرمی کا نسبتاً وسیع موقع فراہم ہوگیا کیونکہ ایک تو وہاں قیدیوں کی تعداد زیادہ تھی، دوسرے یہ کہ وہ دینی اور ثقافتی امور کے بے حد پابند تھے اس کے علاوہ جیل کا یہ حصہ کسی حد تک حکومت کی نگرانی اور حراست سے دورتھا وہاں پر’’ خفیہ پولیس‘‘ والوں کی آمد ورفت کم تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ قیدیوں کے درمیان پھیلی ہوئی بدبو اور کثافت کے جراثیم منتشر گزشتہ صفحہ کا بقیہ :۵۔ایک حصہ وہ ہے جہاں مخصوص فیصلوں کی جیل(جس میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جن کے مقدموں کی سماعت بدنام زمانہ عدالت ، ’’انقلابی عدالت ‘‘ کے سپرد ہوتی ہے نیز اس جیل میں بھی دوحصے ہیں : ۱۔کھلا ہوا حصہ(جس میں قیدیوں کو اپنے عزیز واقارب سے ملاقات کرنے کی اجازت ہوتی ہے)۔ ۲۔بند حصہ ( جو باہر کی دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے اور وہاں کے قیدیوں کو اپنے عزیزواقارب سے ملنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی ، ان کے اندر موجود افراد کے بارے میں معدودے چند جلادوں کے علاوہ جو سختی وسنگدلی میں معروف تھے کسی کو کچھ خبر نہیں ہوتی تھی اور سادات آل حکیم کو اسی حصہ میں قید کیا گیا تھا ۔ ہونے سے وہ بہت ہراساں تھے ۔ یہاں تک کہ بعض ان میں سے جب جیل میں داخل ہوتے تو ماسک لگاکر داخل ہوتے ، غرض کہ مذکورہ حالات واسباب نے حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدسعید الحکیم دام ظلہ العالی کے لئے جیل کے اندر علمی، اجتماعی اور تربیتی کاوشوں کا موقع فراہم کردیا۔ قید خانہ میں آپ کی علمی اور سماجی کارکردگی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم دام ظلہ العالی نے سادات آل حکیم سے تعلق رکھنے والے فضلاء کے لئے تدریس کا آغاز کیا،خصوصاً اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ وہاں کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد ان طلاب کی تھی جو گرفتاری سے پہلے آپ کے درس خارج میں شرکت کرتے تھے چنانچہ آپ نے درس خارج کی سطح کے دو درس ’’فقہ واصول‘‘ شروع کئے اسی طرح دینی مناسبتوں کو زندہ رکھنے کے لئے آپ نے بڑی توجہ اور جانفشانی سے کام لیا ۔ اس سلسلہ میں آپ نے یہ کیا کہ عمومی موضوعات کو لے کر ثقافتی تقاریریں فرماتے جن کا وہاں کی دم گھٹنے والی فضا میں بڑا گہرا اثر قائم ہوا ، اس کے علاوہ گونا گوں نوعیت کے علمی مسائل کے جوابات دینا بھی اسی کدوکاوش میں شامل ہیں،آپ نے اس سعی وکوشش کودرس ہی تک محدود نہ رکھا بلکہ ان میں سے اہم آثار کو قلمبند بھی کیا جو مذکورہ ذیل کتابوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں : ۱’’ تہذیب علم اصول ‘‘ یہ کتاب علم اصول کا ایک مختصر دورہ ہے جسے آپ نے اپنی گرفتاری کے ایام کے بعد کامل کیا جو کتاب بعد میں’’ الکافی فی الاصول‘‘ کے نا م سے چھپ کر منظرعام پر آئی۔ ۲ ’’کتاب الخمس‘‘ یہ فقہی استدلالی کتاب ہے جس کی قید خانے میں تدریس کے وقت جمع آوری ہوئی اور چند حصوں پر مشتمل ہے ۔ ۳ ’’ مباحث الاصول العملیہ ‘‘ اس کتاب کو آپ نے صرف اور صرف اپنے ذہن وحافظہ پر اعتماد کرتے ہوئے تالیف کیا ، لیکن اس خوف سے کہ جیل کی تفتیش اور چھان بین کے دوران’’خفیہ پولیس‘‘ والوں کو اس کی اطلاع نہ ہوجائے آپ نے اسے تلف کردیا ۔ ۴ ’’ سیرۃ النبی اور ائمہ‘‘ یہ کتاب بھی آپ نے محض اپنے ذہن اور حافظے کا سہارا لیتے ہوئے تالیف فرمائی تاکہ اسلامی وثقافتی تقریروں کے لئے اس سے مددلی جاسکے کیونکہ وہاں پر کوئی اور کتاب موجود ہی نہ تھی ، لیکن یہ کتاب بھی ضائع کردی گئی اس لئے کہ وہاں پر کچھ اس طرح کی خبریں پھیلیں کہ’’خفیہ پولیس‘‘ والے جیل کی تلاشی لینے والے ہیں ، واضح رہے کہ اگر تلاشی کے دوران کسی کے پاس سے کاغذ ، کتاب یا رقعہ تک مل جاتا تو ظالم حکومت کے قوانین کے مطابق اس کی سزا سولی کے علاوہ کچھ اورنہ تھی ۔ یہا ں پر اس بات کو بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ مذکورہ بالا کتابیں سگریٹ بکس پر لکھی گئیں جن کو حاصل کرنے نیز لکھنے کے واسطے قلم فراہم کرنے کے لئے جو طریقۂ کار اختیار کیا جاتا اس کی الگ ہی داستان ہے جس کو نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ قید خانہ میں آپ کی تربیتی اور سماجی کار کردگی قیدخانہ کی خستہ حالت اور وہاں پر مہلک امراض کا انتشار، اعزہ واقارب سے قیدیوں کی دوری وجدائی (کیونکہ انھیں اپنے گھراور خاندان والوں سے ملنے کی اجازت ہی نہیں تھی بلکہ اہل خانہ وخاندان ان کے انجام سے یکسربے خبر ہواکرتے تھے) اور انھیں کے بیچ ایسے جوانوں اور نوجوانوں کاوجود جواپنے بوڑھے والدین سے بچھڑ چکے تھے ،ایسے لوگوں کی مو جود گی جو اپنے اہل وعیال اور کنبہ واطفال سے جداہوچکے تھے اور ایسے ضعیف العمر وسن رسیدہ افراد کاوجود جوضعف ونقاہت کے سببمختلف امراض میں مبتلاتھے،اس کے باجوداکثر افراد کے لئے تحقیق وتفتیش کے دوران کی دردناک سزاؤں کے آثارونتائج کا تحمل کرنا نہایت سخت وگراں ہوتاتھا۔ وہاں پر اکثر یت ایسے نوجوانوں کی تھی جونہ جسمانی طور پر اس طرح کی قیدوبندکی صعوبتوں کے کبھی عادی تھے اورنہ ذہنی ونفسیاتی اعتبار سے اس کے لئے آمادہ، کیونکہ حکومت کے خلاف ان کی کوئی سرگرمی تھی ہی نہیں جس کے باعث وہ اس سے کمترسزاکے بھی مستحق قرار پاتے بلکہ یہ جابر حکومت کی سرکشی اور اس کے ظلم وستم کا تباہی خیز سیلاب تھا جو جبری طور پر انھیں بہاکروہاں تک لے آیاتھا،لہٰذا ظاہر سی بات تھی کہ ان کو ان سخت وپر مشقت حالات میں انفرادی واجتماعی لحاظ سے نہایت کرب واذیت سے دوچار ہوناپڑا اور جیل کی بھیانک ،تنگ وتار کو ٹھریوں میں پولیس والوں کی باربار دھمکیاں اورمسلسل دباؤ کاسا منا کرنا انھیں بے حد گراں گزرا، ایسے میں یقیناًانھیں ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو ان کے ساتھ پدری شفقت برتے اور ان کاہرلحاظ سے پاس ولحاظ رکھے اوروہ انسان کوئی اور نہ تھا سوائے حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم طباطبائی دام ظلہ العالی کے، جنھوں نے اس ذمہ داری کو اپنے دوش پر اٹھایا۔ چنانچہ آپ نے ایسے ہزاروں قیدیوں کی دیکھ بھال کی جوخوفناک جیل کی کوٹھریوں میں محبوس ،تڑپتے اور آہ ونالہ کر تے تھے، جو مریض بغیر علاج ومعالجہ کی بنا پر اپنے مرض کاسخت مقابلہ کرتا ہوا نظرآتا آپ اس کی دلجوئی کرتے ،جوبیمار تنگی نفس کاشکارہوتا اس کی خبر گیری کرتے اور تسلی ودلاسادلاتے ، جونوجوان جیل کی سختیوں سے اپنا عزم وحوصلہ کمزور کر بیٹھتا اس کے عزم وحوصلہ میں قوت وتوانائی بخشتے ۔ نیز یکے بعد دیگر ے پیش آنے والی اجتماعی مشکلات کو اپنی حکمت عملی سے حل فرماتے، جب سالوں بعد حکومت بعض قیدیوں کو جن میں سادات آل حکیم بھی شامل تھے۔ ان کے خاندان سے ملاقات کی اجازت دیتے تو آپ نیز دیگرسادات آل حکیم اپنے اہل خاندان کو بڑی مقدارمیں دوا،خوراک اور پوشاک وغیرہ لانے کاحکم دیتے جن کی قیدیوں کو سخت ضرورت تھی اور یہ کام ڈاکڑ سیدمحمد صالح اور جیل کے اندر دیگر ذمہ داران کے ساتھ جو خودبھی قیدی اورمومن انسان تھے ہماہنگی سے انجام پاتا،چنانچہ خواتین سادات اور ان کے کم عمر بچے بڑی سختی ومشقت سے ضرورت کی چیزیں(دوا،غذا،لباس ) فراہم کرتے اور حکومت کی شدید نگرانی و نظارت کی فضامیں بے پناہ اخراجات تحمل کرکے یہ سامان جیل تک پہنچاتے تاکہ ان قیدیوں کا تعاون ہوسکے جن کے حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ اپنے لئے ضرورت کی چیزوں کو کہیں سے فراہم کرسکیں۔ ایسے ماحول اور حالات میں حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم طباطبائی دام ظلہ العالی خود بھی اجتناب کرتے اور اپنے فرزندوں ومتعلقین کو بھی ہدایت کرتے تھے کہ وہ گھر سے آئی ہوئی چیزوں کا اس طرح استعمال نہ کریں کہ دیگر محروم قیدیوں کو اس سے دکھ وٹھیس پہنچے ،نیز آپ ہمیشہ ہدایت کرتے کہ سب کے ساتھ ہمدردی برتی جائے اور سبھی کابرابر خیال رکھاجائے ۔ وہاں کے قیدیوں اورحضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم طباطبائی دام ظلہ العالی کے بیچ پیش آنے والے بے شمارایسے مؤثر قصے اوریادگارواقعات ہیں جن کو موصوف آج تک نقل کرتے رہتے ہیں ان سے اس بات کااندازہ ہوتاہے کہ آپ ان کے لئے ایک مہربان باپ کے عنوان سے ان کا کس قدرخیال رکھتے تھے۔ ان مومن قیدیوں کاپاس ولحاظ اورخیال رکھنے کی صورت حال یہ تھی کہ جس وقت ابوغریب جیل کے بندحصوں میں حددرجہ سختی وصعوبت کے دن گزررہے تھے آپ نے اپنے ایک بیٹے سے فرمایا: ’’ اگر ہماری یعنی سادات آل حکیم کی اذیت ومشقت کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا فائدہ نہ ہو کہ ان مومن قیدیوں کوہماری وجہ سے کچھ تقویت ودلاساہوجائے تو یہی بہت ہے‘‘۔ تفتیش کے دوران موصوف کی ثبات قدمی اورپائیداری عراق کے قیدیوں کوعموماًمختلف قسم کی بے پناہ تکلیف واذیت کاسامنا کرناپڑتاتھاجس کے نتیجہ میں ثبات قدمی وپائیداری کامظاہرہ کرتے رہنابڑا دشواراورمشکل ہوتاہے، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم طباطبائی دام ظلہ العالی کو بھی خود طرح طرح کی تکلیفوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں لاٹھی کی مار اوربجلی کے کرنٹ وغیرہ کے ذریعہ اذیت رسانی شامل ہے اورخاص طورسے ایذارسانی کی وہ کاروائیاں جو ۱۹۹۱؁ء میں کامل تکریتی ملعون کے زیر نگرانی انجام پائیں ، بہت سخت ہیں،یہ شخص ظالم ومجرم صدام کاداماداوراس کے پاس نقیب کاعنوان رکھتاتھا،یہ اس وقت امنیت خاص کے نظام کی صدارت کاماحصل تھانیزاس مشترکہ امنیتی کمیٹی کاصدرتھا جس کے ذمہ ۱۹۹۱ء ؁ کے قومی قیام کے حوادث وواقعات کی تحقیق وتفتیش کاکام سونپاگیاتھا۔(۱) اس ظالم (کامل تکریتی)نے اپناساراغصہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم طباطبائی دام ظلہ العالی کے اوپر اتارا اور اس سلسلہ میں اس نے ایذارسانی کے گوناگوں اسباب ووسائل کاسہارالیا، لیکن حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیمواضح رہے کہ ظالم حکومت نے ۱۹۹۱ء ؁ کے قومی قیام کے واقعات کی چھان بین کے لئے بعض خطرناک قسم کی امنیتی نظاموں کو ملاکر ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی تھی جو نظام امن خاص، نظام امن عام، نظام استخبارات عسکری اور نظام اطلاعات عامہ کے ناموں سے موسوم تھے اور کامل تکریتی،نظامِ امن کاصدر ہونے کے اعتبار سے اس مشترکہ کمیٹی کابھی صدر تھا۔ طباطبائی دام ظلہ العالی نے انوکھے صبر وحوصلہ کامظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ اس ملعون کو کہنا پڑا: ’’ آپ کا جسم نحیف وناتواں ہے تو آپ اعتراف کیوں نہیں کرلیتے تاکہ اتنی تکلیف واذیت سے آپ کو نجات مل جائے‘‘ ۔ آپ دوسرے قیدیوں کو بھی صبر وتحمل ،ثبات واستقامت اور تو کل علی اللہ کی تر غیب دلاتے بلکہ ان کے عزم وحوصلہ کی تقویت کے لئے ان کے ساتھ مزاح بھی کیاکرتے۔ چنانچہ آپ کے مذکورہ مو قف اور برتاؤ کاان پر بہت اثرہوتا اورتفتیش تمام ہونے کے بعد وہ ایک دوسرے سے آپ کے موقف اوررویہ کی نقل وحکایت بھی کرتے غرض کہ جس طرح تفتیش کے دوران ظالم حکومت کو ناکامی کاسامنا کرناپڑا اسی طرح ان حوصلہ شکن حالات میں اسے آپ سے حکومت کے موافق موقف حاصل کرنے میں بھی ہزیمت سے دوچار ہوناپڑا جب کہ اس مقصدکی حصولیابی کے لئے ستمگر حکومت نے آپ کے اوپر ہر طرح کے دباؤ اور سخت تکلیف وایذارسانی میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی اور سادات آل الحکیم کی ایک بڑی تعدادکے خاتمہ کے بعد جب جابر حکومت نے آپ کو اور بقیہ سادات کو آزادکیا [۵؍ ذی قعدہ ۱۴۱۱ ؁ ھ]کو تو رسمی طورپر مرجعیت کاعہدہ قبو ل کرنے کے لئے مختلف اندازسے آپ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ نے شدت کے ساتھ انکارکیااوراس بات پر زوردیاکہ شیعہ دینی مرجعیت کو نظام حکومت سے بالکل جدا اور مستقل ہوناچاہئے اور نیتجہ کے طور پر آپ نے حکومت کے مقاصدکو برآوردہ کرنے پرخود ہرطرح کے دباؤ اور مشقت وصعوبت کے تحمل کرلینے کو تر جیحاً اختیار کیا۔ اس کے بعد ظالم حکومت نے سخت قیودوشرائط کے ساتھ آپ پر اور آپ کی تصنیفات وتالیفات کی نشرواشاعت پر پابندی عائد کردی اور تبلیغی کارکردگی جیسے مبلغین روانہ کرنے،کتابیں تقسیم کرنے،تربیتی کیمپ لگانے،سماجی پروگرام منعقد کرنے اور اجتماعی خدمات وغیر ہ انجام دینے پر روک لگادی یہاں تک کہ آپ جوان ایام میں ہرشب جمعہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے کربلائے معلی تشریف لے جاتے اورکربلا میں صحن حسینی کے اندر نماز جماعت قائم کرتے اس سے بھی آپ کو منع کردیاگیا۔ مگران تمام پابندیوں کے باوجود نجف اشرف کے حوزۂ علمیہ کو استحکام بخشنے ،عراق کے ہزاروں غریبوں کی کفالت کرنے (جن میں بہت سے شہداء اور قیدی افرادکے کنبے بھی شامل تھے )مبلغین ارسال کرنے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کی انجام دہی کی بابت آپ کے پختہ عزم وہمت میں ذرہ برابر فرق نہیں پیداہوا۔ جس وقت آپ نے بغرض علاج بیرون عراق کاسفر کیاتو بہت سے مؤ منین نے خاص طورسے اس بات کے پیش نظر کہ جنگ کے بادل افق پر منڈلارہے ہیں اصرارکیاکہ آپ بیرون عراق ہی رک جائیں اورپلٹ کر عراق واپس نہ آئیں، لیکن آپ نے نجف اشرف کے حوزۂ علمیہ کی آغوش میں پلٹ آنے کاعزم بالجزم کررکھاتھاتاکہ مؤمنین عراق کی طولانی مصیبت وصعوبت میں قریب سے شریک رہیں ۔ چنانچہ آپ نے عراق واپس نہ آنے کی التماس کرنے والے ایک شخص سے فرمایا: ’’میں ڈرتاہوں کہ کہیں میراپلٹ کرعراق کو واپس نہ آنا حوزۂ علمیہ کے اندراور باہر رہنے والے بہت سے مؤمنین کے لئے،مایوسی وناامیدی کا باعث نہ بن جائے کیونکہ انھیں یہ خیال ہو گاکہ میں مؤمنین عراق کو ان کے دردومصیبت میں تنہاچھوڑدینے کے لئے کسی موقع کی تاک اور فرصت کی تلاش میں تھا‘‘۔ چنانچہ یہ بات دوسروں کو بھی حوزۂ علمیہ اور عراق ترک کرنے پر آمادہ کرسکتی ہے اور پھر آخرمیں ظالم حکومت نے اپنی حمایت وتائیدمیں آپ سے بیان جاری کرنے کے سلسلہ میں آپ کے اوپربے حد دباؤ ڈالا کہ شایداس طریقہ سے عراق کی مظلوم عوام صدام کو اس کے اس حتمی ویقینی انجام سے نجات دلانے کے لئے اٹھ کھڑی ہو جو انجام اللہ کی مشیت سے اس کے کل تک کے آقاؤں اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کے انتظار میں تھا لیکن آپ نے ان تما م تر دباؤ کے باوجود اس کی اس درخواست کو یکسرٹھکرادیا یہاں تک کہ خداکی مرضی سے اس ظالم وستمگرحکومت کااس طرح خا تمہ ہوگیاکہ اب انشاء اللہ کبھی اس کی رجعت وبازگشت نہ ہوگی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید محمدسعید الحکیم طباطبائی دام ظلہ العالی ،کی عمر بابر کت کو دراز کرے اور حقیقی اسلام کے اصولوں کی نشرواشاعت اور مؤمنین کی خد مت کے لئے انھیں مزید تو فیقات سے نوازے یقیناًً اللہ توفیق عنایت فرمانے والا اورمددکرنے والاہے۔

وَالسَّلامُ عَلَیکُم وَرَحمَۃُاللّٰہِ وَبَرَکاتُہ